رسم الفت سے ہے مقصود وفا ہو کہ نہ ہو
زخم دل اور ہو خون بستہ شفا ہو کہ نہ ہو
ہم جفاکار وفا ہیں ہمیں مطلوب نہیں
حاصل زلف سیاہ کار سزا ہو کہ نہ ہو
رکھ لیا تھوڑا سا امکان تمنا نے بھرم
دست شرمندہ رہے چاہے عطا ہو کہ نہ ہو
ہو میرے قتل میں قاتل کی بھی مرضی شامل
شور و غل خوب رہے آہ و بقا ہو کہ نہ ہو
تھی ستمکاری قسمت کی وہ شدت ہمدم
تو بھی رنجیدہ رہا مجھ سے گلا ہو کہ نہ ہو
اک یہ بندش رہی انجام وفا کو کو کر
اہل دنیا پہ میری رسم روا ہو کہ نہ ہو
بس یہ آشوب محبت کی دوا ہے بالغؔ
مرگ آسان کی تمنا ہو قضا ہو کہ نہ ہو

غزل
رسم الفت سے ہے مقصود وفا ہو کہ نہ ہو
عرفان احمد میر