EN हिंदी
رقص الہام کر رہا ہوں | شیح شیری
raqs-e-ilham kar raha hun

غزل

رقص الہام کر رہا ہوں

فرحت احساس

;

رقص الہام کر رہا ہوں
میں جسم کلام کر رہا ہوں

میری ہے جو خاص اپنی مٹی
اس خاص کو عام کر رہا ہوں

اک مشکل سخت آ پڑی ہے
اک صبح کو شام کر رہا ہوں

دنیا سے کہو ذرا سا ٹھہرے
اس وقت آرام کر رہا ہوں

چپ چاپ پڑا ہوا ہوں گھر میں
اور شہر میں نام کر رہا ہوں

مٹی کو پلٹ رہا ہوں اپنی
پختہ کو خام کر رہا ہوں

کیا کام ہے جاننا ہے مجھ کو
اک صرف یہ کام کر رہا ہوں

بے ربطئ جسم و جاں فزوں تر
توہین نظام کر رہا ہوں

خوشبوئے خدا لگا کے خود پر
مذہب کو حرام کر رہا ہوں

ایمان نے کچھ سنی نہ میری
سو کفر پہ کام کر رہا ہوں

اللہ میاں کے مشورے سے
ترک‌ سلام کر رہا ہوں

اے زندہ باد فرحتؔ احساس
میں تجھ کو سلام کر رہا ہوں