EN हिंदी
رنجشوں نے جذبۂ اخلاص گرمایا بھی ہے | شیح شیری
ranjishon ne jazba-e-iKHlas garmaya bhi hai

غزل

رنجشوں نے جذبۂ اخلاص گرمایا بھی ہے

مہندر پرتاپ چاند

;

رنجشوں نے جذبۂ اخلاص گرمایا بھی ہے
دوستی میں ہم نے کچھ کھویا ہے کچھ پایا بھی ہے

اک ذرا سی بات پر کیوں کر تعلق توڑ دوں
وہ پرانا یار بھی ہے میرا ہمسایہ بھی ہے

اس طرف دیکھا تو ہے بے شک حقارت سے سہی
شکر ہے اتنا کرم تو اس نے فرمایا بھی ہے

یوں تو کچھ قیمت نہیں جنس وفا کی ہاں مگر
جس قدر ارزاں ہے یہ اتنی گراں مایہ بھی ہے

سیر پھر بھی ہو نہیں پایا دل ایذا طلب
وقت نے جی بھر کے گو اس پر ستم ڈھایا بھی ہے

ہجر کی شب اور یادوں کی سرور آگیں پھوار
کچھ تو دل کی بے قراری کو قرار آیا بھی ہے

لاکھ موجوں کی بلا خیزی نے کی کھلواڑ بھی
اس نے کشتی کو مگر ساحل پہ پہنچایا بھی ہے

پھر بھی یا رب کیا ملے گا حاسدوں کے شہر میں
تاج تو شہرت کا تو نے مجھ کو پہنایا بھی ہے

کیوں نہ چاندؔ اپنی انا کو جان سے رکھوں عزیز
یہ مرا ایمان بھی ہے میرا سرمایہ بھی ہے