EN हिंदी
رنج کی جب گفتگو ہونے لگی | شیح شیری
ranj ki jab guftugu hone lagi

غزل

رنج کی جب گفتگو ہونے لگی

داغؔ دہلوی

;

رنج کی جب گفتگو ہونے لگی
آپ سے تم تم سے تو ہونے لگی

چاہیئے پیغام بر دونوں طرف
لطف کیا جب دوبدو ہونے لگی

میری رسوائی کی نوبت آ گئی
ان کی شہرت کو بہ کو ہونے لگی

ہے تری تصویر کتنی بے حجاب
ہر کسی کے رو بہ رو ہونے لگی

غیر کے ہوتے بھلا اے شام وصل
کیوں ہمارے رو بہ رو ہونے لگی

ناامیدی بڑھ گئی ہے اس قدر
آرزو کی آرزو ہونے لگی

اب کے مل کر دیکھیے کیا رنگ ہو
پھر ہماری جستجو ہونے لگی

داغؔ اترائے ہوئے پھرتے ہیں آج
شاید ان کی آبرو ہونے لگی