EN हिंदी
رنج فراق یار میں رسوا نہیں ہوا | شیح شیری
ranj-e-firaq-e-yar mein ruswa nahin hua

غزل

رنج فراق یار میں رسوا نہیں ہوا

منیر نیازی

;

رنج فراق یار میں رسوا نہیں ہوا
اتنا میں چپ ہوا کہ تماشا نہیں ہوا

ایسا سفر ہے جس میں کوئی ہم سفر نہیں
رستہ ہے اس طرح کا جو دیکھا نہیں ہوا

مشکل ہوا ہے رہنا ہمیں اس دیار میں
برسوں یہاں رہے ہیں یہ اپنا نہیں ہوا

وہ کام شاہ شہر سے یا شہر سے ہوا
جو کام بھی ہوا ہے وہ اچھا نہیں ہوا

ملنا تھا ایک بار اسے پھر کہیں منیرؔ
ایسا میں چاہتا تھا پر ایسا نہیں ہوا