رنگیں بنا کے دامن زخم جگر کو میں
گلزار کر رہا ہوں فضائے نظر کو میں
گاتا ہوں ساز دل پہ ترانے سحر کو میں
بیدار کر رہا ہوں کسی فتنہ گر کو میں
ملزم نظر ہے یا سر شوریدہ کا قصور
کعبہ سمجھ رہا ہوں ترے سنگ در کو میں
چن کر گل نیاز قریب بساط دل
باغ ارم بناتا ہوں داغ جگر کو میں
وحشی بنا ہوا ہے مری مانتا نہیں
اللہ کیا کروں دل شوریدہ سر کو میں
اے حسن دل نواز مری ہمتیں تو دیکھ
دل دے کے مول لیتا ہوں درد جگر کو میں
سنگ در حبیب کو کعبہ بنا نہ لوں
جلوہ سمجھ کے حسن فریب نظر کو میں
زاہد نماز عشق کی تجدید کے لئے
پھر اس کے نقش پا پہ جھکاتا ہوں سر کو میں
میری طرح مجھے وہ نظر آئیں بے قرار
کرتا ہوں اپنی آہ میں پیدا اثر کو میں
شاید نیاز مند کو حاصل نیاز ہو
حسرت سے تک رہا ہوں تری رہ گزر کو میں
کرتا ہوں ضبط غم کہ نہ کھل جائے راز عشق
دل میں چھپا کے رکھتا ہوں تیر نظر کو میں
انورؔ گئیں نہ دل کی مرے بدگمانیاں
رہزن سمجھ رہا ہوں ہر اک راہ بر کو میں
غزل
رنگیں بنا کے دامن زخم جگر کو میں
انور سہارنپوری