رنگ موسم کے ساتھ لائے ہیں
یہ پرندے کہاں سے آئے ہیں
بیٹھ جاتے ہیں راہ رو تھک کر
کتنے ہمت شکن یہ سائے ہیں
دھوپ اپنی زمین ہے اپنی
پیڑ اپنے نہیں پرائے ہیں
اپنے احباب کی خوشی کے لئے
بلا ارادہ بھی مسکرائے ہیں
دشمنوں کو قریب سے دیکھا
دوستوں کے فریب کھائے ہیں
ہم نے توڑا ہے ظلمتوں کا فسوں
روشنی کے بھی تیر کھائے ہیں
دیکھ لے مڑ کر محو آرایش
آئینہ بن کے ہم بھی آئے ہیں
پے بہ پے راہ کی شکستوں نے
حوصلے اور بھی بڑھائے ہیں
زندگی ہے اسی کا نام اعجازؔ
ہیں وہ اپنے جو غم پرائے ہیں
غزل
رنگ موسم کے ساتھ لائے ہیں
اعجاز رحمانی