EN हिंदी
رنگ لے کر نیا اداسی کا | شیح شیری
rang le kar naya udasi ka

غزل

رنگ لے کر نیا اداسی کا

بلقیس خان

;

رنگ لے کر نیا اداسی کا
کوئی منظر بنا اداسی کا

پھر کوئی داستان چھیڑی گئی
پھر بنا دائرہ اداسی کا

میری آنکھوں میں رقص ویرانی
دیکھ کر دل پھٹا اداسی کا

میں نے کمرے میں جس طرف دیکھا
نقش بنتا گیا اداسی کا

مشتمل ہے ہزار صدیوں پر
پل وہ ٹھہرا ہوا اداسی کا

شیروانی خرید لی اس نے
میں نے زیور لیا اداسی کا