رنگ کالا ہے نہ ہے پیکر سیاہ
آدمی دراصل ہے اندر سیاہ
اب کہاں قوس قزح کے دائرے
اب ہے تا حد نظر منظر سیاہ
کتنا کالا ہو گیا تھا اس کا دل
جسم سے نکلا تو تھا خنجر سیاہ
وقت نے سنولا دیا سارا بدن
دھیرے دھیرے ہو گیا مرمر سیاہ
دھوپ کافی دور تک تھی راہ میں
لمحہ لمحہ ہو گیا پیکر سیاہ
غزل
رنگ کالا ہے نہ ہے پیکر سیاہ
عنبر شمیم