EN हिंदी
رنگ وحشت کم نہیں زخم تماشا کم نہیں | شیح شیری
rang-e-wahshat kam nahin zaKHm-e-tamasha kam nahin

غزل

رنگ وحشت کم نہیں زخم تماشا کم نہیں

نامی انصاری

;

رنگ وحشت کم نہیں زخم تماشا کم نہیں
زندہ رہنے کے لیے آشوب دنیا کم نہیں

دیکھنا چاہیں تو ساحل پر لیے منظر بہت
ڈوبنا چاہیں تو کوئی موج دریا کم نہیں

لوٹ کر واپس نہیں آئے پرندے آج بھی
حرص کے صید زبوں کو بال عنقا کم نہیں

وقت کی رفتار کو ناپے ہے عقل نارسا
ذرۂ نا چیز بھی ہنگامہ آرا کم نہیں

بال و پر کے آزمانے کو فضائیں ہیں بہت
آسماں کا دشت لا محدود ایسا کم نہیں

زیر پا مجھ کو کئی ٹوٹے ہوئے خنجر ملے
شہر نا پرساں میں بھی میرے شناسا کم نہیں

اس جہان خیر و شر سے بد گماں کیوں ہو کوئی
بازوئے قاتل سے نامیؔ دست عیسیٰ کم نہیں