رنگ خلوص گنگ و جمن میں نہیں رہا
کیا حسن تھا جو ارض وطن میں نہیں رہا
کرتا نہیں ہے دشت تمنا میں کوئی رم
اب وہ غزال شوق ختن میں نہیں رہا
اشجار گل کو میں نے ہی سینچا تمام عمر
خوشبو اسے ملی جو چمن میں نہیں رہا
یک لخت مجھ پہ اس کے سب اسرار کھل گئے
اب کوئی جن چراغ بدن میں نہیں رہا
تبدیل ہو گئے ہیں جواں سال خال و خد
وہ بانکپن بھی تیرے سخن میں نہیں رہا
میں تشنہ کام اس کے کنارے گیا سلیمؔ
لیکن وہ آب خطۂ تن میں نہیں رہا
غزل
رنگ خلوص گنگ و جمن میں نہیں رہا
سلیم سرفراز