EN हिंदी
رنگ اور نور کی تمثیل سے ہوگا کہ نہیں | شیح شیری
rang aur nur ki tamsil se hoga ki nahin

غزل

رنگ اور نور کی تمثیل سے ہوگا کہ نہیں

دانیال طریر

;

رنگ اور نور کی تمثیل سے ہوگا کہ نہیں
شب کا ماتم مری قندیل سے ہوگا کہ نہیں

دیکھنا یہ ہے کہ جنگل کو چلانے کے لئے
مشورہ ریچھ سے اور چیل سے ہوگا کہ نہیں

آیت تیرہ شبی پڑھتے ہوئے عمر ہوئی
سامنا اب بھی عزازیل سے ہوگا کہ نہیں

زرد مٹی میں اترتی ہوئی اے قوس قزح
خواب پیدا تری ترسیل سے ہوگا کہ نہیں

اوس کے پھول مہکتے ہیں تری آنکھوں میں
ان کا رشتہ بھی کسی نیل سے ہوگا کہ نہیں

جب سخن کرنے لگوں گا میں تجھے عصر رواں
استعارہ کوئی انجیل سے ہوگا کہ نہیں