EN हिंदी
رکھی ہرگز نہ ترے رکھ نے رخ بدر کی قدر | شیح شیری
rakkhi hargiz na tere rakh ne ruKH-e-badr ki qadr

غزل

رکھی ہرگز نہ ترے رکھ نے رخ بدر کی قدر

نظیر اکبرآبادی

;

رکھی ہرگز نہ ترے رکھ نے رخ بدر کی قدر
کھوئی کاکل نے بھی آخر کو شب قدر کی قدر

عزت و قدر کی اس گل سے توقع ہے عبث
واں نہ عزت کی کچھ عزت ہے نہ کچھ قدر کی قدر

راستی خوار ہے اس چشم فسوں پرور سے
ہاں مگر منزلت مکر ہے اور عذر کی قدر

مے پرستوں میں ہے یوں ساغر و مینا کا وقار
جیسے اسلام میں ہو محتسب و صدر کی قدر

کفش برداری سے اس مہر کی چمکا ہے نظیرؔ
ورنہ کیا خاک تھی اس ذرۂ بے قدر کی قدر