رکھی ہرگز نہ ترے رکھ نے رخ بدر کی قدر
کھوئی کاکل نے بھی آخر کو شب قدر کی قدر
عزت و قدر کی اس گل سے توقع ہے عبث
واں نہ عزت کی کچھ عزت ہے نہ کچھ قدر کی قدر
راستی خوار ہے اس چشم فسوں پرور سے
ہاں مگر منزلت مکر ہے اور عذر کی قدر
مے پرستوں میں ہے یوں ساغر و مینا کا وقار
جیسے اسلام میں ہو محتسب و صدر کی قدر
کفش برداری سے اس مہر کی چمکا ہے نظیرؔ
ورنہ کیا خاک تھی اس ذرۂ بے قدر کی قدر
غزل
رکھی ہرگز نہ ترے رکھ نے رخ بدر کی قدر
نظیر اکبرآبادی