رکھتے ہیں خضر سے نہ غرض رہ نما سے ہم
چلتے ہیں بچ کے دور ہر اک نقش پا سے ہم
مانوس ہو چلے ہیں جو دل کی صدا سے ہم
شاید کہ جی اٹھے تری آواز پا سے ہم
یا رب نگاہ شوق کو دے اور وسعتیں
گھبرا اٹھے جمال جہت آشنا سے ہم
مخصوص کس کے واسطے ہے رحمت تمام
پوچھیں گے ایک دن یہ کسی پارسا سے ہم
او مست ناز حسن تجھے کچھ خبر بھی ہے
تجھ پر نثار ہوتے ہیں کس کس ادا سے ہم
یہ کون چھا گیا ہے دل و دیدہ پر کہ آج
اپنی نظر میں آپ ہیں ناآشنا سے ہم
غزل
رکھتے ہیں خضر سے نہ غرض رہ نما سے ہم
جگر مراد آبادی