EN हिंदी
رکھتے ہیں خضر سے نہ غرض رہ نما سے ہم | شیح شیری
rakhte hain KHizr se na gharaz rahnuma se hum

غزل

رکھتے ہیں خضر سے نہ غرض رہ نما سے ہم

جگر مراد آبادی

;

رکھتے ہیں خضر سے نہ غرض رہ نما سے ہم
چلتے ہیں بچ کے دور ہر اک نقش پا سے ہم

مانوس ہو چلے ہیں جو دل کی صدا سے ہم
شاید کہ جی اٹھے تری آواز پا سے ہم

یا رب نگاہ شوق کو دے اور وسعتیں
گھبرا اٹھے جمال جہت آشنا سے ہم

مخصوص کس کے واسطے ہے رحمت تمام
پوچھیں گے ایک دن یہ کسی پارسا سے ہم

او مست ناز حسن تجھے کچھ خبر بھی ہے
تجھ پر نثار ہوتے ہیں کس کس ادا سے ہم

یہ کون چھا گیا ہے دل و دیدہ پر کہ آج
اپنی نظر میں آپ ہیں ناآشنا سے ہم