رکھتے ہیں اپنے خوابوں کو اب تک عزیز ہم
حالانکہ اس میں ہو گئے دل کے مریض ہم
اس کے بیان سے ہوئے ہر دل عزیز ہم
غم کو سمجھ رہے تھے چھپانے کی چیز ہم
یہ کائنات تو کسے ملتی ہے چھوڑیئے
اپنی ہی ذات سے نہ ہوئے مستفیض ہم
چارہ گری کی بات کسی اور سے کرو
اب ہو گئے ہیں یارو پرانے مریض ہم
غزل
رکھتے ہیں اپنے خوابوں کو اب تک عزیز ہم
شجاع خاور