رکھی نہ گئی دل میں کوئی بات چھپا کر
دیوار سے ٹھہرا تھا کوئی کان لگا کر
تو خواب ہے یا کوئی حقیقت نہیں معلوم
کرتی ہوں میں تصدیق ابھی بتی جلا کر
مائل تھی میں خود اس کی طرف کیا پتا اس کو
وہ مجھ سے مخاطب ہوا رومال گرا کر
ملنے کے لئے کیسی جگہ ڈھونڈھ لی تم نے
میں چھو بھی نہیں سکتی تمہیں ہاتھ بڑھا کر
گزری کسی کی رات غم ہجر میں روتے
کمرہ کسی نے رکھا تھا پھولوں سے سجا کر
پھر کوئی نیا کام نکل آیا تھا کم بخت
بیٹھی بھی نہیں تھی میں ابھی کھانا بنا کر
بیٹے نے کہا ماں مجھے مطلب بھی بتاؤ
اٹھنے ہی لگی تھی اسے قرآن پڑھا کر
غزل
رکھی نہ گئی دل میں کوئی بات چھپا کر
زہرا قرار