EN हिंदी
رکھیں ہیں جی میں مگر مجھ سے بد گمانی آپ | شیح شیری
rakhen hain ji mein magar mujhse bad-gumani aap

غزل

رکھیں ہیں جی میں مگر مجھ سے بد گمانی آپ

مصحفی غلام ہمدانی

;

رکھیں ہیں جی میں مگر مجھ سے بد گمانی آپ
جو میرے ہاتھ سے پیتے نہیں ہیں پانی آپ

گھڑی گھڑی نہ کریں ہم پہ مہربانی آپ
کہ حسن رکھتے ہیں اور عالم جوانی آپ

میں بوسہ لے لے کے رخ کا اٹھا دیا پردہ
اسی غرور پہ کرتے تھے لن ترانی آپ

میں اپنا حال جو کہنے لگا تو یوں بولا
''سنے ہے کون؟ کہا کیجیے کہانی آپ''

میں بے گناہ سزا وار گالیوں کا نہیں
نہ میرے ساتھ کریں اتنی بد زبانی آپ

مصوروں نے قلم رکھ دیے ہیں ہاتھوں سے
بناویں آئنے میں اپنا نقش ثانی آپ

وفا کی اس سے طلب کر نہ ہرگز اے ناداں
کہ بے وفا ہے طلسم جہان فانی آپ

شراب وصل کا کس کی پیا ہے یہ ساغر
خمار شب سے جو رکھتے ہیں سرگرانی آپ

یہ بے وفا بھی میاں مصحفیؔ کسی کے ہوئے
بتوں پہ کرتے ہو کیوں اتنی جانفشانی آپ