رکھے ہے رنگ کچھ ساقی شراب ناب آتش کا
مقطر کیا کیا لے کر گل شاداب آتش کا
مرے یہ گرم آنسو پونچھ مت دست نگاریں سے
کہ ان آنکھوں سے رہتا ہے رواں سیلاب آتش کا
تہ مژگاں نہاں رکھتے ہیں ہم لخت دل سوزاں
یہاں خاشاک میں رکھا ہے اخگر داب آتش کا
نگاہ گرم سے اس کی دل بیتاب روکش ہے
حریف آخر ہوا یہ پارۂ سیماب آتش کا
جو سیل اشک و آہ گرم کو ٹک دیجیے رخصت
نشاں دریا کا گم ہو نام ہو نایاب آتش کا
شکیب و تاب و ہوش و صبر سوز غم سے سب سلگا
ہوا طعمہ غرض اپنا تمام اسباب آتش کا
عرق اس شعلہ گوں عارض پہ کیا صنع الٰہی ہے
نہیں دیکھا ہے ہم نے ربط باہم آب آتش کا
غزل
رکھے ہے رنگ کچھ ساقی شراب ناب آتش کا
ممنونؔ نظام الدین