EN हिंदी
رکھ رکھاؤ میں کوئی خوار نہیں ہوتا یار | شیح شیری
rakh-rakhaw mein koi KHwar nahin hota yar

غزل

رکھ رکھاؤ میں کوئی خوار نہیں ہوتا یار

افتخار مغل

;

رکھ رکھاؤ میں کوئی خوار نہیں ہوتا یار
دوست ہوتے ہیں، ہر اک یار نہیں ہوتا یار

دو گھڑی بیٹھو مرے پاس، کہو کیسی ہو
دو گھڑی بیٹھنے سے پیار نہیں ہوتا یار

یار! یہ ہجر کا غم! اس سے تو موت اچھی ہے
جاں سے یوں ہی کوئی بیزار نہیں ہوتا یار

روح سنتی ہے محبت میں بدن بولتے ہیں
لفظ پیرایۂ اظہار نہیں ہوتا یار

نوکری، شاعری، گھر بار، زمانہ، قدریں
اک محبت ہی کا آزار نہیں ہوتا یار

خوش دلی اور ہے اور عشق کا آزار کچھ اور
پیار ہو جائے تو اقرار نہیں ہوتا یار

لڑکیاں لفظ کی تصویر چھپا لیتی ہیں
ان کا اظہار بھی اظہار نہیں ہوتا یار

آدمی عشق میں بھی خود سے نہیں گھٹ سکتا
آدمی سایۂ دیوار نہیں ہوتا یار!!

گھیر لیتی ہے کوئی زلف، کوئی بوئے بدن
جان کر کوئی گرفتار نہیں ہوتا یار

یہی ہم آپ ہیں ہستی کی کہانی، اس میں
کوئی افسانوی کردار نہیں ہوتا یار