رکھ دیا ہے مری دہلیز پہ پتھر کس نے
اور پھر بھیجے ہیں آسیب کے لشکر کس نے
شجر تر نہ یہاں برگ شناسا کوئی
اس قرینے سے سجایا ہے یہ منظر کس نے
کشتیاں کیسے نکل پائیں گی گیلی تہہ سے
پی لیا چند ہی سانسوں میں سمندر کس نے
پیشوائی کے لیے بنت صبا آئی ہے
پا شکستہ ہوں بنایا ہے قد آور کس نے
میری بستی بھی ہوئی شعلہ زنی میں شامل
لا کے چھوڑے ہیں یہاں آگ کے پیکر کس نے

غزل
رکھ دیا ہے مری دہلیز پہ پتھر کس نے
حمید الماس