EN हिंदी
رہنے دے تکلیف توجہ دل کو ہے آرام بہت | شیح شیری
rahne de taklif-e-tawajjoh dil ko hai aaram bahut

غزل

رہنے دے تکلیف توجہ دل کو ہے آرام بہت

عنوان چشتی

;

رہنے دے تکلیف توجہ دل کو ہے آرام بہت
ہجر میں تیری یاد بہت ہے غم میں تیرا نام بہت

بات کہاں ان آنکھوں جیسی پھول بہت ہیں جام بہت
اوروں کو سرشار بنائیں خود ہیں تشنہ کام بہت

کچھ تو بتاؤ اے فرزانو دیوانوں پر کیا گزری
شہر تمنا کی گلیوں میں برپا ہے کہرام بہت

شغل شکست جام و توبہ پہروں جاری رہتا ہے
ہم ایسے ٹھکرائے ہوؤں کو مے خانے میں کام بہت

دل شکنی و دل داری کی رمزوں پر ہی کیا موقوف
ان کی ایک اک جنبش لب میں پنہاں ہیں پیغام بہت

آنسو جیسے بادۂ رنگیں دھڑکن جیسے رقص پری
ہائے یہ تیرے غم کی حلاوت رہتا ہوں خوش کام بہت

اس کے تقدس کے افسانے سب کی زباں پر جاری ہیں
اس کی گلی کے رہنے والے پھر بھی ہیں بدنام بہت

زخم بہ جاں ہے خاک بسر ہے چاک بداماں ہے عنواںؔ
بزم جہاں میں رقص وفا پر ملتے ہیں انعام بہت