رہین خواب ہوں اور خواب کے مکاں میں ہوں
جہان مجھ سے سوا ہے میں جس جہاں میں ہوں
عجب طرح کا خرد خیز ہے جنوں میرا
مجھے خبر ہے میں کس کار رائیگاں میں ہوں
تو مجھ کو پھینک چکا کب کا اپنے دشمن پر
میں اب کماں میں نہیں ہوں ترے گماں میں ہوں
مری تھکن بھی تری ہجرتوں میں شامل ہے
میں گرد گرد سہی تیرے کارواں میں ہوں
الجھ پڑا تھا میں اک روز اپنے سائے سے
اور اس کے بعد اکیلا ہی داستاں میں ہوں
غزل
رہین خواب ہوں اور خواب کے مکاں میں ہوں
سجاد بلوچ