EN हिंदी
رہ گزر ہو یا مسافر نیند جس کو آئے ہے | شیح شیری
rahguzar ho ya musafir nind jis ko aae hai

غزل

رہ گزر ہو یا مسافر نیند جس کو آئے ہے

غلام ربانی تاباںؔ

;

رہ گزر ہو یا مسافر نیند جس کو آئے ہے
گرد کی میلی سی چادر اوڑھ کے سو جائے ہے

قربتیں ہی قربتیں ہیں دوریاں ہی دوریاں
آرزو جادو کے صحرا میں مجھے دوڑائے ہے

وقت کے ہاتھوں ضمیر شہر بھی مارا گیا
رفتہ رفتہ موج خوں سر سے گزرتی جائے ہے

میری آشفتہ سری وجہ شناسائی ہوئی
مجھ سے ملنے روز کوئی حادثہ آ جائے ہے

یوں تو اک حرف تسلی بھی بڑی شے ہے مگر
ایسا لگتا ہے وفا بے آبرو ہو جائے ہے

زندگی کی تلخیاں دیتی ہیں خوابوں کو جنم
تشنگی صحرا میں دریا کا سماں دکھلائے ہے

کس طرح دست ہنر میں بولنے لگتے ہیں رنگ
مدرسے والوں کو تاباںؔ کون سمجھا پائے ہے