رہے نہ ایک بھی بیداد گر ستم باقی
رکے نہ ہاتھ ابھی تک ہے دم میں دم باقی
اٹھا دوئی کا جو پردا ہماری آنکھوں سے
تو کعبے میں بھی رہا بس وہی صنم باقی
بلا لو بالیں پہ حسرت نہ دل میں میرے رہے
ابھی تلک تو ہے تن میں ہمارے دم باقی
لحد پہ آئیں گے اور پھول بھی اٹھائیں گے
یہ رنج ہے کہ نہ اس وقت ہوں گے ہم باقی
یہ چار دن کے تماشے ہیں آہ دنیا کے
رہا جہاں میں سکندر نہ اور نہ جم باقی
تم آؤ تار سے مرقد پہ ہم قدم چومیں
فقط یہی ہے تمنا تری قسم باقی
رساؔ یہ رنج اٹھایا فراق میں تیرے
رہے جہاں میں نہ آخر کو آہ ہم باقی
غزل
رہے نہ ایک بھی بیداد گر ستم باقی
بھارتیندو ہریش چندر