رہروی ہے نہ رہنمائی ہے
آج دور شکستہ پائی ہے
عقل لے آئی زندگی کو کہاں
عشق ناداں تری دہائی ہے
ہے افق در افق رہ ہستی
ہر رسائی میں نارسائی ہے
شکوے کرتا ہے کیا دل ناکام
عاشقی کس کو راس آئی ہے
ہو گئی گم کہاں سحر اپنی
رات جا کر بھی رات آئی ہے
جس میں احساس ہو اسیری کا
وہ رہائی کوئی رہائی ہے
کارواں ہے خود اپنی گرد میں گم
پاؤں کی خاک سر پہ آئی ہے
بن گئی ہے وہ التجا آنسو
جو نظر میں سما نہ پائی ہے
برق ناحق چمن میں ہے بدنام
آگ پھولوں نے خود لگائی ہے
وہ بھی چپ ہیں خموش ہوں میں بھی
ایک نازک سی بات آئی ہے
اور کرتے ہی کیا محبت میں
جو پڑی دل پہ وہ اٹھائی ہے
نئے صافی میں ہو نہ آلائش
یہی ملاؔ کی پارسائی ہے
غزل
رہروی ہے نہ رہنمائی ہے
آنند نرائن ملا