EN हिंदी
رہ گیا انساں اکیلا بستیوں کے درمیاں | شیح شیری
rah gaya insan akela bastiyon ke darmiyan

غزل

رہ گیا انساں اکیلا بستیوں کے درمیاں

صلاح الدین ندیم

;

رہ گیا انساں اکیلا بستیوں کے درمیاں
گم ہوا سورج خود اپنی تابشوں کے درمیاں

ہاتھ لگتے ہی بکھر جاتے ہیں رنگوں کی طرح
پھول سے پیکر سمے کی آندھیوں کے درمیاں

روح کی اندھی گلی میں چیختا ہے رات دن
جسم کا زخمی پرندہ خواہشوں کے درمیاں

بن گیا زنجیر میرے پاؤں کی میرا وجود
قید ہے دریا بھی اپنے ساحلوں کے درمیاں

خشک مٹی میں ملی ہے پھر نئے موسم کی باس
پھر شجر نکھرے برستے پانیوں کے درمیاں

ہر طرف منزل نظر آئے تو پھر جاؤں کہاں
سوچ کا پتھر بنا ہوں راستوں کے درمیاں

نقش ہے آنکھوں میں اپنی موسم گل کا سماں
آئنے شبنم کے رکھے ہیں گلوں کے درمیاں

یوں سفر کی گرد میں لپٹا ہوا پایا ندیمؔ
جس طرح آیا ہو سورج بادلوں کے درمیاں