رہ طلب میں بڑی طرفگی کے ساتھ چلے
کسی کے ساتھ نہ تھے اور سبھی کے ساتھ چلے
نہ ہم سفر کوئی پایا نہ راہبر چاہا
وہ راہرو ہیں کہ ہم زندگی کے ساتھ چلے
فریب خود کو دئے اور خود ہی پچھتائے
کسی کا جو نہ ہوا ہم اسی کے ساتھ چلے
کہو کہ ہوتی ہے اک چیز سر بلندی بھی
کہا یہ کس نے کہ ہم سرکشی کے ساتھ چلے
رہے شریک سفر اعتماد ہم قدمی
یہ کیا ضرور ہے کوئی کسی کے ساتھ چلے
شکستہ پا ہی سہی رہروان درد مگر
یہ کم نہیں کہ سلامت روی کے ساتھ چلے
خود اپنا سوز طلب دے سکے نہ جس کا ساتھ
دیار غم میں وہ کس روشنی کے ساتھ چلے
یہ کہہ کے ہو گئے خود سے بھی ہم جدا حرمتؔ
سفر میں کون کسی اجنبی کے ساتھ چلے

غزل
رہ طلب میں بڑی طرفگی کے ساتھ چلے
حرمت الااکرام