رہ سلوک میں بل ڈالنے پہ رہتا ہے
لہو کا کھیل خلل ڈالنے پہ رہتا ہے
یہ دیکھتا نہیں بنیاد میں ہیں ہڈیاں کیا
ہر ایک اپنا محل ڈالنے پہ رہتا ہے
مہم پہ روز نکلتا ہے تاجر بارود
اور ایک خوف اجل ڈالنے پہ رہتا ہے
اور ایک ہاتھ ملاتا ہے زہر پانی میں
اور ایک ہاتھ کنول ڈالنے پہ رہتا ہے
اور ایک ہاتھ کھلاتا ہے شاخ پر کونپل
اور ایک ہاتھ مسل ڈالنے پہ رہتا ہے
اور ایک ہاتھ اٹھاتا ہے پرچم آواز
اور ایک ہاتھ کچل ڈالنے پہ رہتا ہے
اور ایک ہاتھ بڑھاتا ہے ارتقا کا سروپ
اور ایک ہاتھ بدل ڈالنے پہ رہتا ہے
سب ایک رد عمل کا عمل ہے اور نہیں
جو ایک رد عمل ڈالنے پہ رہتا ہے
رجوع لا متزلزل ہے جو مسائل کا
دماغ میں کوئی حل ڈالنے پہ رہتا ہے
ہم اپنا رد و بدل ڈال دیتے ہیں اس میں
وہ اپنا رد و بدل ڈالنے پہ رہتا ہے
میان ثابت و سیار ارتکاز مرا
ابد کے بیچ ازل ڈالنے پہ رہتا ہے
یہ صبح و شام پہ پھیلا ہوا مرا ہونا
یہ میرے آج میں کل ڈالنے پہ رہتا ہے
ہر ایک راہ گزر سے گزرتا ہے سورج
اور اک شعاع اٹل ڈالنے پہ رہتا ہے
پسند آتے نہیں سیدھے سادھے لوگ اسے
وہ اپنے ماتھے پہ بل ڈالنے پہ رہتا ہے
روش کوئی بھی زیادہ اسے نہیں بھاتی
وہ اپنا آپ بدل ڈالنے پہ رہتا ہے
نویدؔ طائر لاہوتی کا جنوں تو نہیں
جو ڈال ڈال پہ پھل ڈالنے پہ رہتا ہے
غزل
رہ سلوک میں بل ڈالنے پہ رہتا ہے
افضال نوید