رہ خزاں میں تلاش بہار کرتے رہے
شب سیہ سے طلب حسن یار کرتے رہے
خیال یار کبھی ذکر یار کرتے رہے
اسی متاع پہ ہم روزگار کرتے رہے
نہیں شکایت ہجراں کہ اس وسیلے سے
ہم ان سے رشتۂ دل استوار کرتے رہے
وہ دن کہ کوئی بھی جب وجہ انتظار نہ تھی
ہم ان میں تیرا سوا انتظار کرتے رہے
ہم اپنے راز پہ نازاں تھے شرمسار نہ تھے
ہر ایک سے سخن راز دار کرتے رہے
ضیائے بزم جہاں بار بار ماند ہوئی
حدیث شعلہ رخاں بار بار کرتے رہے
انہیں کے فیض سے بازار عقل روشن ہے
جو گاہ گاہ جنوں اختیار کرتے رہے
غزل
رہ خزاں میں تلاش بہار کرتے رہے
فیض احمد فیض