رہ جنوں میں خدا کا حوالہ کیا کرتا
یہ خضر رنج سفر کا ازالہ کیا کرتا
گزارنی تھی ترے ہجر کی پہاڑ سی رات
میں تار ریشم و زر کا دوشالہ کیا کرتا
نہ شغل خارا تراشی نہ کاروبار جنوں
میں کوہ و دشت میں فریاد و نالہ کیا کرتا
حکایت غم دنیا کو چاہئے دفتر
ورق ورق مرے دل کا رسالہ کیا کرتا
میں تشنہ کام ترے میکدے سے لوٹ آیا
کسی کے نام کا لے کر پیالہ کیا کرتا
غزل
رہ جنوں میں خدا کا حوالہ کیا کرتا
ناصر کاظمی