رہ جنوں میں غم زندگی کو مار دیا
یہ نشہ تلخ تھا ہم نے مگر اتار دیا
اب انتظار کی شب جانے کس نگر میں کٹے
یہ دن تو ہم نے ترے شہر میں گزار دیا
نہ اس نے آپ ہی سوچا فغان دل کا علاج
نہ مجھ کو اشک بہانے کا اختیار دیا
اک اور سال کا غم دل پہ اشک بن کے گرا
اک اور سال ترے ہجر میں گزار دیا
دیار جاں میں کوئی اور سانپ ہے تو بتا
جو آستیں میں تھا پنہاں وہ ہم نے مار دیا
کوئی فصیل ہی ٹوٹی نہ کوئی قفل کھلا
نہ جانے سوچ کے کیا دل کو اقتدار دیا

غزل
رہ جنوں میں غم زندگی کو مار دیا
نسیم سائلپوری