EN हिंदी
رگوں میں زہر کا نشتر چبھو دیا میں نے | شیح شیری
ragon mein zahr ka nashtar chubho diya maine

غزل

رگوں میں زہر کا نشتر چبھو دیا میں نے

خورشید سحر

;

رگوں میں زہر کا نشتر چبھو دیا میں نے
نہ راس آیا جو ہنسنا تو رو دیا میں نے

کہیں پہ کوئی مرا عکس ہی نہیں ملتا
کس انتشار میں خود کو ڈبو دیا میں نے

تم اپنے خواب کی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لینا
متاع جاں کی تمنا تو کھو دیا میں نے

وہ روز میری انا کو ذلیل کرتا تھا
اسے بھی اپنے لہو میں ڈبو دیا میں نے

تمہارے نام جو دل کے ورق پہ روشن تھا
وہ ایک حرف عقیدت بھی دھو دیا میں نے