رگوں میں زہر کا نشتر چبھو دیا میں نے
نہ راس آیا جو ہنسنا تو رو دیا میں نے
کہیں پہ کوئی مرا عکس ہی نہیں ملتا
کس انتشار میں خود کو ڈبو دیا میں نے
تم اپنے خواب کی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لینا
متاع جاں کی تمنا تو کھو دیا میں نے
وہ روز میری انا کو ذلیل کرتا تھا
اسے بھی اپنے لہو میں ڈبو دیا میں نے
تمہارے نام جو دل کے ورق پہ روشن تھا
وہ ایک حرف عقیدت بھی دھو دیا میں نے

غزل
رگوں میں زہر کا نشتر چبھو دیا میں نے
خورشید سحر