EN हिंदी
رگ احساس میں نشتر ٹوٹا | شیح شیری
rag-e-ehsas mein nashtar TuTa

غزل

رگ احساس میں نشتر ٹوٹا

ضیا فتح آبادی

;

رگ احساس میں نشتر ٹوٹا
ہاتھ سے چھوٹ کے ساغر ٹوٹا

ٹوٹنا تھا دل نازک کو نہ پوچھ
کب کہاں کس لئے کیوں کر ٹوٹا

سینہ دھرتی کا لرز اٹھا ہے
آسماں سے کوئی اختر ٹوٹا

جھک گیا پائے بتاں پر لیکن
پتھروں سے نہ مرا سر ٹوٹا

سخت جانی مری توبہ توبہ
قتل کرتے تھے کہ خنجر ٹوٹا

اشک پلکوں سے گرا یوں جیسے
خشک ٹہنی سے گل تر ٹوٹا

اے ضیاؔ ہو کے رہا زنداں سے
اڑنے پایا بھی نہ تھا پر ٹوٹا