رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے
اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے
میناے مے ہے سرو نشاط بہار سے
بال تدرو جلوۂ موج شراب ہے
زخمی ہوا ہے پاشنہ پاۓ ثبات کا
نے بھاگنے کی گوں نہ اقامت کی تاب ہے
جاداد بادہ نوشی رنداں ہے شش جہت
غافل گماں کرے ہے کہ گیتی خراب ہے
نظارہ کیا حریف ہو اس برق حسن کا
جوش بہار جلوے کو جس کے نقاب ہے
میں نامراد دل کی تسلی کو کیا کروں
مانا کہ تیرے رخ سے نگہ کامیاب ہے
گزرا اسدؔ مسرت پیغام یار سے
قاصد پہ مجھ کو رشک سوال و جواب ہے
ظاہر ہے طرز قید سے صیاد کی غرض
جو دانہ دام میں ہے سو اشک کباب ہے
بے چشم دل نہ کر ہوس سیر لالہ زار
یعنی یہ ہر ورق ورق انتخاب ہے
غزل
رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے
مرزا غالب