رفتہ رفتہ منظر شب تاب بھی آ جائیں گے
نیند تو آ جائے پہلے خواب بھی آ جائیں گے
کیا پتہ تھا خون کے آنسو رلا دیں گے مجھے
اس کہانی میں کچھ ایسے باب بھی آ جائیں گے
خشک آنکھوں نے تو شاید یہ کبھی سوچا نہ تھا
ایک دن صحراؤں میں سیلاب بھی آ جائیں گے
حوصلے یوں ہی اگر بڑھتے گئے تو دیکھنا
ساحلوں تک ایک دن گرداب بھی آ جائیں گے
بس ذرا ملنے تو دو میری تباہی کی خبر
دل دکھانے کے لیے احباب بھی آ جائیں گے
آپ کی بزم مہذب میں نیا ہوں شادؔ میں
آتے آتے بزم کے آداب بھی آ جائیں گے
غزل
رفتہ رفتہ منظر شب تاب بھی آ جائیں گے
خوشبیر سنگھ شادؔ