رفت و آمد بنا رہا ہوں میں
راہ مقصد بنا رہا ہوں میں
کام میں لا کے کچھ خس و خاشاک
اپنی مسند بنا رہا ہوں میں
زندگی جرم تو نہیں لیکن
ہو کے سرزد بنا رہا ہوں میں
یوں ہی بے کار میں پڑا خود کو
کار آمد بنا رہا ہوں میں
گویا اپنی حدود سے بڑھ کر
اپنی سرحد بنا رہا ہوں میں
کر رہا ہوں حیات نو تعمیر
اپنا مرقد بنا رہا ہوں میں
دے رہا ہوں جلا شراروں کو
خود کو موبد بنا رہا ہوں میں
ماہ کی آج پھر گہن بن کر
تاب اسود بنا رہا ہوں میں
منحرف ہو کے اس کی چاہت سے
خود کو مرتد بنا رہا ہوں میں
وہ کہ بن پا نہیں رہا مجھ سے
جو کہ شاید بنا رہا ہوں میں
اگ رہا ہوں میں اور ساتھ اپنے
سر پہ برگد بنا رہا ہوں میں

غزل
رفت و آمد بنا رہا ہوں میں
خاور جیلانی