راز یہ سب کو بتانے کی ضرورت کیا ہے
دل سمجھتا ہے ترے ذکر میں لذت کیا ہے
جس میں موتی کی جگہ ہاتھ میں مٹی آئے
اتنی گہرائی میں جانے کی ضرورت کیا ہے
اپنے حالات پہ مائل بہ کرم وہ بھی نہیں
ورنہ اس گردش دوراں کی حقیقت کیا ہے
قابل دید ہے آہستہ خرامی ان کی
آ دکھاؤں تجھے زاہد کہ قیامت کیا ہے
ان کے دامن پہ جو گرتا تو پتا چل جاتا
اے مری آنکھ کے آنسو تری قیمت کیا ہے
بن کے آئے ہیں خریدار عرب کے بوڑھے
ہائے مفلس تری بیٹی کی بھی قسمت کیا ہے
منہ بھی دیکھا نہیں میں نے کبھی مے خانہ کا
توبہ توبہ مجھے توبہ کی ضرورت کیا ہے

غزل
راز یہ سب کو بتانے کی ضرورت کیا ہے
رازؔ الٰہ آبادی