راز ابل پڑے آخر آسماں کے سینوں سے
ربط اس زمیں کو ہے اور بھی زمینوں سے
کون سا جہاں ہے یہ کیسے لوگ ہیں اس میں
اٹھتا ہے دھواں ہر دم دل کے آبگینوں سے
ہر بشر ہے فریادی ہر طرف اندھیرا ہے
مہر و مہ نہیں نکلے شہر میں مہینوں سے
اک طرف زبانوں پر دوستی کے نعرے ہیں
اک طرف ٹپکتا ہے خون آستینوں سے
مفلسوں کی بستی میں وسعتیں ہیں دنیا کی
آپ اتر کے دیکھیں تو اپنی شہ نشینوں سے
نا خدا کی ہمت کا امتحان لیتی ہے
ورنہ کد نہیں کچھ بھی موج کی سفینوں سے
تجربوں کی دنیا میں اہل علم و حکمت کو
رفعتیں ملیں فرحتؔ فکر و فن کے زینوں سے
غزل
راز ابل پڑے آخر آسماں کے سینوں سے
فرحت قادری