EN हिंदी
راز ہے عبرت اثر فطرت کی ہر تحریر کا | شیح شیری
raaz hai ibrat-asar fitrat ki har tahrir ka

غزل

راز ہے عبرت اثر فطرت کی ہر تحریر کا

بیباک بھوجپوری

;

راز ہے عبرت اثر فطرت کی ہر تحریر کا
مصحف‌ ناطق کہاں محتاج ہی تفسیر کا

معنی‌ٔ قدر و قضا ہے نو بہار لالہ رنگ
ہر دل ذرہ میں ہے جذبہ نئی تعمیر کا

حکمت‌ آدم سے ہے روشن شبستان جہاں
نفس مقصد ہے ہویدا خالق تقدیر کا

کاوش پیہم سے دنیا کی فضا جنت‌ ادا
یہ تصرف ہے بشر کی قوت تسخیر کا

دولت کونین مشت خاک کے دامن میں ہے
آدمی معمار ہے آفاق کی تقدیر کا

بحر امکاں میں حباب آسا ہے کشتیٔ وجود
نقش فانی ہر تموج سیل آفت گیر کا

پیکر خاکی جہان مخزن اسرار ہے
آدمی شہکار ہے اللہ کی تقدیر کا

خون سے مجبور کے دشت جہاں جنت بدوش
شدت محنت سے دل کش رنگ ہے تصویر کا

نالۂ بلبل سے فصل گل گریباں چاک ہے
غنچہ غنچہ صید ہے باد سحر کے تیر کا

موجزن ہے قطرۂ شبنم میں سیل زندگی
ذرۂ کمتر ہے محور مہر‌ پر تنویر کا

اضطراب شوق میں دل ہاتھ سے جاتا رہا
یہ اثر ہے ہم نشیں تقریر پر تاثیر کا

نشتر وحشت نفس موج نفس کی سرکشی
عالم تعزیر ہے دوزخ مری تقصیر کا

فقر پر ایثار سے ہیں مطمئن روح‌ و ضمیر
درد دل ہے خاص مخزن عشق کی جاگیر کا

ذرہ ذرہ سے ہے ظاہر شاہد ہر دو جہاں
آئنہ ببیاکؔ دل ہے خالق تقدیر کا