راز عشق اظہار کے قابل نہیں
جرم یہ اقرار کے قابل نہیں
آنکھ پر خوں شق جگر دل داغ دار
کوئی نذر یار کے قابل نہیں
دید کے قابل حسیں تو ہیں بہت
ہر نظر دیدار کے قابل نہیں
دے رہے ہیں مے وہ اپنے ہاتھ سے
اب یہ شے انکار کے قابل نہیں
جان دینے کی اجازت دیجیے
سر مرا سرکار کے قابل نہیں
چھوڑ بھی گلشن کو اے نرگس کہیں
یہ ہوا بیمار کے قابل نہیں
شاعری کو طبع رنگیں چاہیئے
ہر زمیں گل زار کے قابل نہیں
خامشی میری یہ کہتی ہے جلیلؔ
درد دل اظہار کے قابل نہیں
غزل
راز عشق اظہار کے قابل نہیں
جلیلؔ مانک پوری