راز فطرت سے عیاں ہو کوئی منظر کوئی دھن
ساز ہستی سے بھی نکلے کوئی پیکر کوئی دھن
میں وہ آواز جو اب تک ہے سماعت سے پرے
میں وہ نغمہ ابھی اتری نہیں جس پر کوئی دھن
اک غزل چھیڑ کے روتا رہا مجھ میں کوئی
اک سماں باندھ کے ہنستی رہی مجھ پر کوئی دھن
اونگھنے لگتی ہے جب پاؤں کے چھالوں کی تپک
چھیڑ دیتے ہیں مری راہ کے پتھر کوئی دھن
عقل فرمان سناتی رہی ٹوٹا نہ جمود
رقص وحشت کا تقاضا تھا مکرر کوئی دھن
وقت کی لے سے ہم آہنگ جو ہوتا ہوں ندیم
بین کرتی ہے کہیں روح کے اندر کوئی دھن

غزل
راز فطرت سے عیاں ہو کوئی منظر کوئی دھن
ندیم فاضلی