EN हिंदी
راتوں کو تصور ہے ان کا اور چپکے چپکے رونا ہے | شیح شیری
raaton ko tasawwur hai un ka aur chupke chupke rona hai

غزل

راتوں کو تصور ہے ان کا اور چپکے چپکے رونا ہے

ساغر نظامی

;

راتوں کو تصور ہے ان کا اور چپکے چپکے رونا ہے
اے صبح کے تارے تو ہی بتا انجام مرا کیا ہونا ہے

ان نو رس آنکھوں والوں کا کیا ہنسنا ہے کیا رونا ہے
برسے ہوئے سچے موتی ہیں بہتا ہوا خالص سونا ہے

دل کو کھویا خود بھی کھوئے دنیا کھوئی دین بھی کھویا
یہ گم شدگی ہے تو اک دن اے دوست تجھے بھی کھونا ہے

تمییز کمال و نقص اٹھا یہ تو روشن ہے دنیا پر
میں چندن ہوں تو کندن ہے میں مٹی ہوں تو سونا ہے

تو یہ نہ سمجھ للہ کہ ہے تسکین ترے دیوانوں کو
وحشت میں ہمارا ہنس پڑنا دراصل ہمارا رونا ہے

ماتم ہے مری آواز شکست ساز دل صد پارہ کا
ساغرؔ میرا نغمہ بھی دیپک کے سروں میں رونا ہے