EN हिंदी
راتوں کے اندھیروں میں یہ لوگ عجب نکلے | شیح شیری
raaton ke andheron mein ye log ajab nikle

غزل

راتوں کے اندھیروں میں یہ لوگ عجب نکلے

فرحت قادری

;

راتوں کے اندھیروں میں یہ لوگ عجب نکلے
سب نام و نسب والے بے نام و نسب نکلے

تعمیر پسندی نے کچھ زیست پر اکسایا
کچھ موت کے ساماں بھی جینے کا سب نکلے

یہ نور کے سوداگر خود نور سے عاری ہیں
گردوں پہ مہ و انجم تنویر طلب نکلے

یہ دشت یہ صحرا سب ویران ہیں برسوں سے
اس سمت بھی دیوانہ تکبیر بہ لب نکلے

تہذیب کی بے باکی ایسی تو نہ تھی پہلے
ہم جب بھی کہیں نکلے تا حد ادب نکلے

تسکیں کے لئے ہم نے جن سے بھی گزارش کی
ہم سے بھی زیادہ وہ تسکین طلب نکلے

ہستی کی مسافت میں اپنا جنہیں سمجھا تھا
جب وقت پڑا فرحتؔ وہ مہر بہ لب نکلے