رات یہ کون مرے خواب میں آیا ہوا تھا
صبح میں وادئ شاداب میں آیا ہوا تھا
اک پرندے کی طرح اڑ گیا کچھ دیر ہوئی
عکس اس شخص کا تالاب میں آیا ہوا تھا
میں بھی اس کے لیے بیٹھا رہا چھت پر شب بھر
وہ بھی میرے لیے مہتاب میں آیا ہوا تھا
سرد خطے میں سلگتا ہوا جنگل تھا بدن
آگ سے نکلا تو برفاب میں آیا ہوا تھا
یہ تو صد شکر خیالوں نے ترے کھینچ لیا
میں تو حالات کے گرداب میں آیا ہوا تھا
یاد ہیں دل کو محبت کے شب و روز حسنؔ
گاؤں جیسے کوئی سیلاب میں آیا ہوا تھا
غزل
رات یہ کون مرے خواب میں آیا ہوا تھا
حسن عباسی