رات سنسان ہے گلی خاموش
پھر رہا ہے اک اجنبی خاموش
بات دل کی چھپائی لاکھ ان سے
آنکھ لیکن نہ رہ سکی خاموش
ہجر کی آگ میں جلے چپ چاپ
زندگی یوں گزار دی خاموش
پوجتا ہوں تجھے خیالوں میں
کر رہا ہوں میں بندگی خاموش
شمع محفل کچھ اس طرح چپ ہے
جیسے جاڑے کی چاندنی خاموش
ہم سے اظہار مدعا نہ ہوا
لب ہلے پر زباں رہی خاموش
کوئی ہنگامہ چاہئے ناصرؔ
کیسے گزرے گی زندگی خاموش
غزل
رات سنسان ہے گلی خاموش
ناصر زیدی