EN हिंदी
رات سنسان ہے گلی خاموش | شیح شیری
raat sunsan hai gali KHamosh

غزل

رات سنسان ہے گلی خاموش

ناصر زیدی

;

رات سنسان ہے گلی خاموش
پھر رہا ہے اک اجنبی خاموش

بات دل کی چھپائی لاکھ ان سے
آنکھ لیکن نہ رہ سکی خاموش

ہجر کی آگ میں جلے چپ چاپ
زندگی یوں گزار دی خاموش

پوجتا ہوں تجھے خیالوں میں
کر رہا ہوں میں بندگی خاموش

شمع محفل کچھ اس طرح چپ ہے
جیسے جاڑے کی چاندنی خاموش

ہم سے اظہار مدعا نہ ہوا
لب ہلے پر زباں رہی خاموش

کوئی ہنگامہ چاہئے ناصرؔ
کیسے گزرے گی زندگی خاموش