EN हिंदी
رات سے دن کا وہ جو رشتہ تھی | شیح شیری
raat se din ka wo jo rishta thi

غزل

رات سے دن کا وہ جو رشتہ تھی

دنیش نائیڈو

;

رات سے دن کا وہ جو رشتہ تھی
شام تھی اور کیسی تنہا تھی

خط کے پرزے پڑے تھے کمرے میں
اک پرانی کتاب بھی وا تھی

سب کے مطلب کے خواب تھے اس میں
شب کے ہاتھوں میں ایک پڑیا تھی

رات بھر آندھیوں کا دور چلا
شاخ پر اک اداس چڑیا تھی

ان دنوں جب وہ میرے ساتھ ہی تھا
میری دنیا بھی ایک دنیا تھی

جھیل جیسی تھیں اس کی ہی آنکھیں
باقی دنیا تو خیر صحرا تھی

آخرش ڈوبنا پڑا مجھ کو
آرزو تھی یا کوئی دریا تھی