رات لمبی بھی ہے اور تاریک بھی شب گزاری کا ساماں کرو دوستو
جانے پھر کب یہ ملنا مقدر میں ہو اپنی اپنی کہانی کہو دوستو
کس پری چہرہ سے پیار تم نے کیا کون سے دیس کے شاہزادے ہو تم
اپنی روداد الفت سنا کر بہم داستاں کوئی تشکیل دو دوستو
مجھ کو احساس ہے تم بھی میری طرح جان و دل کوئے الفت میں ہار آئے ہو
اب یہ بازی نئے سر سے ممکن نہیں اپنا انجام خود سوچ لو دوستو
صبح ہوگی تو ظالم زمانے کے غم تم پہ ابر ستم بن کے چھا جائیں گے
فرصت بزم شب سے گھڑی دو گھڑی بات آپس کی کوئی کرو دوستو
ڈھل گئی رات تارے بکھرنے لگے منتشر ہو چلے دھیان کے سلسلے
کوئی دم اور دل میں فروزاں رہو ایک مدت کے بعد آئے ہو دوستو
غزل
رات لمبی بھی ہے اور تاریک بھی شب گزاری کا ساماں کرو دوستو
حسن اختر جلیل