رات کیا ڈھل گئی سمندر میں
گھل گئی تیرگی سمندر میں
ایک سرخی پہاڑ سے ابھری
پھر اترتی گئی سمندر میں
اک سفینہ کہیں پہ ڈوبا تھا
کتنی ہلچل ہوئی سمندر میں
خود سمندر کی نیند ٹوٹ گئی
رات کچھ یوں ڈھلی سمندر میں
غرق ہوتا گیا کوئی صحرا
دھول اڑتی گئی سمندر میں
کوئی طوفاں ضرور اٹھنا تھا
اپنی کشتی جو تھی سمندر میں
غزل
رات کیا ڈھل گئی سمندر میں
بلبیر راٹھی