EN हिंदी
رات کیا ڈھل گئی سمندر میں | شیح شیری
raat kya Dhal gai samundar mein

غزل

رات کیا ڈھل گئی سمندر میں

بلبیر راٹھی

;

رات کیا ڈھل گئی سمندر میں
گھل گئی تیرگی سمندر میں

ایک سرخی پہاڑ سے ابھری
پھر اترتی گئی سمندر میں

اک سفینہ کہیں پہ ڈوبا تھا
کتنی ہلچل ہوئی سمندر میں

خود سمندر کی نیند ٹوٹ گئی
رات کچھ یوں ڈھلی سمندر میں

غرق ہوتا گیا کوئی صحرا
دھول اڑتی گئی سمندر میں

کوئی طوفاں ضرور اٹھنا تھا
اپنی کشتی جو تھی سمندر میں