رات کتنی بوجھل ہے کس قدر اندھیرا ہے
دل گواہی دیتا ہے پاس ہی سویرا ہے
ایک شہ پہ بچ جائے شہ پہ شہ چلی آئے
موت کے کھلاڑی کو زندگی نے گھیرا ہے
ناصحوں کا احساں ہے آپ مجھ کو سمجھاتے
جس گلی میں چھوڑ آئے اس گلی کا پھیرا ہے
کائنات کے دل میں رقص صد بہاراں بھی
کائنات کے دل میں یار کا بھی ڈیرا ہے

غزل
رات کتنی بوجھل ہے کس قدر اندھیرا ہے
صفدر میر