EN हिंदी
رات کتنی بوجھل ہے کس قدر اندھیرا ہے | شیح شیری
raat kitni bojhal hai kis qadar andhera hai

غزل

رات کتنی بوجھل ہے کس قدر اندھیرا ہے

صفدر میر

;

رات کتنی بوجھل ہے کس قدر اندھیرا ہے
دل گواہی دیتا ہے پاس ہی سویرا ہے

ایک شہ پہ بچ جائے شہ پہ شہ چلی آئے
موت کے کھلاڑی کو زندگی نے گھیرا ہے

ناصحوں کا احساں ہے آپ مجھ کو سمجھاتے
جس گلی میں چھوڑ آئے اس گلی کا پھیرا ہے

کائنات کے دل میں رقص صد بہاراں بھی
کائنات کے دل میں یار کا بھی ڈیرا ہے