رات کی نیندیں تو پہلے ہی اڑا کر لے گیا
رہ گئی تھی آرزو سو وہ بھی آ کر لے گیا
دن نکلتے ہی وہ خوابوں کے جزیرے کیا ہوئے
صبح کا سورج مری آنکھیں چرا کر لے گیا
دور سے دیکھو تو یہ دریا ہے پانی کی لکیر
موج میں آیا تو جنگل بھی بہا کر لے گیا
اس نے تو ان موتیوں پر خاک بھی ڈالی نہیں
آنکھ کی تھالی میں دل آنسو سجا کر لے گیا
غور سے دیکھا تو دل کی خاک تک باقی نہ تھی
مجھ کو دعویٰ تھا کہ میں سب کچھ بچا کر لے گیا

غزل
رات کی نیندیں تو پہلے ہی اڑا کر لے گیا
شہزاد احمد