EN हिंदी
رات کی نیندیں تو پہلے ہی اڑا کر لے گیا | شیح شیری
raat ki ninden to pahle hi uDa kar le gaya

غزل

رات کی نیندیں تو پہلے ہی اڑا کر لے گیا

شہزاد احمد

;

رات کی نیندیں تو پہلے ہی اڑا کر لے گیا
رہ گئی تھی آرزو سو وہ بھی آ کر لے گیا

دن نکلتے ہی وہ خوابوں کے جزیرے کیا ہوئے
صبح کا سورج مری آنکھیں چرا کر لے گیا

دور سے دیکھو تو یہ دریا ہے پانی کی لکیر
موج میں آیا تو جنگل بھی بہا کر لے گیا

اس نے تو ان موتیوں پر خاک بھی ڈالی نہیں
آنکھ کی تھالی میں دل آنسو سجا کر لے گیا

غور سے دیکھا تو دل کی خاک تک باقی نہ تھی
مجھ کو دعویٰ تھا کہ میں سب کچھ بچا کر لے گیا